یہ شبیں یہ پھیلی ہوئی شبیں
مرے آس پاس سمندروں کا گمان ہے
مجھے ٹھہرے پانی سے خوف آتا ہے موت سا
یہ شبیں
یہ تیرہ شبیں بھی سیاہ سمندروں سے گھلی ملی سی دکھائی دیتی ہیں آنکھ کو
میں اتر رہا ہوں قدم قدم کسی روگ میں
کوئی سیاہ روگ ہے ہر طرف
مری پلکیں رسیاں بن کے لمبی لٹک گئیں
میں چلوں تو پیر الجھنے لگتے ہیں
رسیوں کے سلوک سے
مرے پاؤں نرم سے
بے زباں سے
ملوک سے
مرے راستے بڑے روکھے، تنگ، کرخت ہیں
مجھے دیکھتے ہیں کئی زمانوں کی بھوک سے
مری منزلیں بڑی کالی سیاہ، سمندروں سی، بلاؤں سی
بڑی ٹھہری، ٹھہری، رکی رکی سی، خلاؤں سی
مری آنکھ سے مری آبشاریں بھی رک گئیں
مرے خون میں کئی دکھ کے دریا بھی رک گئے
جو خیال میں تری یاد یاد کی چل رہی تھیں
وہ سب قطاریں بھی رک گئیں
فقط اک اندھیرا سا چاروں سمت ٹھہر گیا
یہ شبیں یہ تیرہ شبیں بھی سیاہ سمندروں سے گھلی ملی سی دکھائی دیتی ہیں آنکھ کو
مجھے ٹھہرے پانی سے خوف آتا ہے موت سا
فرحت عباس شاہ