مجھے ڈھونڈو

مجھے ڈھونڈو
مجھے ڈھونڈو
خزاں کے رنگ میں برسات کی آواز میں ڈھونڈو
کہ ان سے دوستی میں میری ساری عمر گزری ہے
کسی کے عشق میں سوکھا ہوا دریا
کسی کے انتظارِ بے اماں میں دشت ہوں
یا ہجر کی بے چینیوں میں سر سراتا کوئی جنگل ہوں
مجھے ڈھونڈو
کوئی دہلیز جس پر کھو چکے لوگوں کی کوئی آس لکھی ہو
کوئی در جو ابھی وا ہو ازل سے اور ابد تک وا ہی رہنا ہے
کوئی سنسان دل جو مطمئن بھی ہو بیابانی پہ اپنی
عین ممکن ہے مرا کوئی نشاں دے دے
یا کم از کم گماں دے دے
مجھے ڈھونڈو
کسی دیرینہ خواہش کے مسافر سے پتہ پوچھو
کسی حسرت کی اڑتی راکھ میں ڈھونڈو
کسی کی رات کی نکڑ پہ سوتے جاگتے اس خواب میں ڈھونڈو
جسے خدشات میں لپٹے ہوئے احساس سے اظہار کی امداد لینا ہو
کسی کی چاپ کی چُپ میں بجھی امید میں ڈھونڈو
جو سڑکوں پر بچھی ہو گھر میں پھیلی ہو
جو آزردہ سماعت میں خلش بن کر سلگتی ہو
کسی کی گرد میں ڈھونڈو جسے گزرے ہوئے کو چند لمحوں کے لیے محفوظ رکھنا ہے
کسی کے درد میں ڈھونڈو کہیں کوئی تعلق ہی نکل سکتا ہے بھولے سے
ہوائے سرد میں ڈھونڈو
کسی بھی فرد میں ڈھونڈو
کہ جس کی آنکھ کا کوئی کنارا تر دکھائی دے
کہ جس کا دل اُداسی کا پرانا گھر دکھائی دے
جو چارہ گر دکھائی دے
مجھے ڈھونڈو مجھے ڈھونڈو
فرحت عباس شاہ
(کتاب – دکھ بولتے ہیں)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *