مجھے شہر میں نہ ملا کرو
کسی دن ہجوم لتاڑڈالے گا تیرے میرے وصال کو
کسی دن نفوس کی افراتفری بگاڑ دے گا جمال کو
کسی چوک پر
کوئی بس رکے گی سیاہ بتی کے حکم پر
کوئی موت چیخے گی بے وجہ
کوئی خون پھسلے گا تارکول کی برف پر
وہی سیاہ برف کہ جس پہ بجھتی ہے دھوپ آ کے ملال کی
کسی دن وفا کے کسی ہنڈولے پہ رو پڑے گا کوئی نشیب میں سر دیے
کسی دن سراب کے باغ میں
تری میری ڈیٹ پہ ہول اترے گا جرم کا
ہمیں چور آ کے اتار جائیں گے خود ہماری ہی اپنی شرم کی گھاٹ میں
کوئی راستہ جو لپٹ گیا کبھی پاؤں سے
کوئی کنکری کبھی انگلیوں میں اٹک گئی
کوئی شاخ جو کبھی پیرہن سے الجھ گئی
بھلا کون کون سی شئے کسی سے چھڑائیں گے
کسی دن ہوائیں اتار دیں گی رداؤں کو
ترے میرے پاس ردا بنا بھلا ہے بھی کیا
کسی دن بلائیں ادھیڑ ڈالیں گی روح کو
تجھے کتنی بار کہا ہے خوف کی اوٹ سے
مجھے شہر میں نہ ملا کرو
فرحت عباس شاہ