کسی چیرہ دستی کا خوف مجھ کو نہیں رہا
کسی اضطراب کے ہاتھ میں ہے مرا لہو
مرا دل سنبھل ہی نہیں رہا ہے دباؤ سے
یہ جو بے پناہ تھکن کی اوٹ میں فرد ہے
اسے کون جا کے کہے کہ راستہ سرد ہے
جہاں عجز ہے وہاں تہ میں کوئی غرور بھی
بڑی خامشی سے دبک کے بیٹھا ہے تخت پر
مجھے موت کر کے تلاش لانی ہے سامنے
مجھے میرے حال پہ چھوڑ دے مری زندگی
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ابھی خواب ہے)