کبھی اڑتا ہوا دیکھو تو سمجھو
آسمانی دشت اب کے واپسی مسدود کر دیں گے
فضا کی بے کراں وسعت میں اڑتا دوریوں کا پار طے کرتا
کبھی کوئی فسردہ شام ڈھلنے پر
کسی منڈیر پر بیٹھا نظر آتا ہے
اور ہم دام رنگارنگ ہاتھوں میں لیے بڑھتے ہیں
اور بڑھتے چلے جاتے ہیں لیکن فاصلہ گھٹتا نہیں
محبت تشنگی بردار صحرا ہے
سرابوں کے نصابوں سے بھرا
تشنہ لبی کے باب میں ہر پل نیا انداز بدلے
رہروان شوق کو بے حال کرتا
العتش کہنے نہیں دیتا
محبت زندگی بردار سپنا ہے
جو امیدوں کے کچے ساحلوں پر
منہ لپیٹے رات دن
آتش زدہ ارماں اٹھائے پھر رہا ہے
اور سجائے پھر رہا ہے تازیانے پشت پر
تعبیر کے دھوکے میں زندہ ہے
محبت حادثہ بردار لمحہ ہے
پلک جھپکے میں رنج و غم کے طوفاں گھیر لاتا ہے
کبھی آتش فشاں بن کے جو پھٹتا ہے
تو ہنستی مسکراتی بستیوں کو راکھ کر دیتا ہے فوراً ہی
کبھی آندھی کی صورت جنگلوں کو توڑتا ہے
اور کبھی یک لخت موج تند بن کر
کشتیاں الٹا دیا کرتا ہے ساحل پر
محبت آرزو بردار باد تند ہے
جو روح کی دیوانگی کو
جنگلوں، صحراؤں
شہروں اور ویرانوں میں
اپنے ساتھ اڑائے پھر رہی ہے وقت کے سیل ستمگر میں
بلا کا درد سہتی
اور کسی سے کچھ نہ کہتی
بس اڑے جاتی ہے حاصل کے خلاؤں میں
محبت تعزیہ بردار ماتم ہے
جو سالوں سے عذاداروں کے سینوں پر برستا
بین کرتا ہے
وفاؤں کے نصیب سیاہ پر نوحہ کناں
قاتل زمانے پر خود اپنے خون کے چھینٹے اڑاتا ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – خیال سور ہے ہو تم)