محبت گمشدہ میری
میں کوئی
رندِ آوارہ
بدن پر اپنے خوابوں کے شکستہ چیتھڑے اوڑھے
برہنہ پا، نہتّا، بے سروساماں
شکاری راستوں کے غول میں
سمتوں کی دیواروں پہ اپنا سر پٹکتا
ڈھونڈتا ہوں
بستیوں کو واسطے دیتا
گلی کوچوں کی بے رحمی کے نرغے میں
بمشکل سانس لیتا ہوں
کسی کی آنکھ سے الجھا
کسی کے دامنِ خوش رنگ کے چقماق سے چندھیا گئیں
بینائیوں پر ہاتھ رکھتا
چل رہا ہوں
چل رہا ہوں اور نہ کوئی رُت پتہ دیتی ہے اُس کا
اور نہ کوئی پل رسائی دے رہا ہے
بس کئی بے مہر برسوں سے
سرابِ اعتبارِ دہر کے گھیرے میں
زخموں کے حسیں تمغے سجاتا دل کے شانوں پر
مسلسل جل رہا ہوں
مسلسل جل رہا ہوں میں
محبت گمشدہ میری
فرحت عباس شاہ