میں نے کہا تھا نا
محبت جنگل ہوتی ہے
جس سے نکلنے والے سبھی راستے کسی اور جنگل میں کھلتے ہیں
میں تمہارے جنگل سے نکل نہیں سکا
جنگل در جنگل ایک عجیب سلسلے میں قید ہو کر رہ گیا ہوں
اور شاید بھٹک بھی گیا ہوں
ورنہ کہیں ٹھہر ہی گیا ہوتا
میں نے بہت ساری جھیلوں کو اپنی سہیلیاں بنا لیا ہے
اور بہت سارے درختوں کے نام
تمہارے نام پہ رکھے ہیں
اب میں جہاں سے بھی گزرتا ہوں
تمہارے نام والے درختوں کو پہچان لیتا ہوں
اس کے باوجود کہ وہ پہلے سے بہت بدل چکے ہوتے ہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اداس شامیں اجاڑ رستے)