محرومی اور بے بسی کی گھٹن

محرومی اور بے بسی کی گھٹن
کمرے میں دو چار، دس بیس بتیاں، اور ہوتیں
وہ بھی جلا لیتا
کھڑکیاں اور زیادہ ہوتیں
وہ بھی کھول لیتا،
کاش کسی طرح چھت ہی کھل سکتی،
یا پھر سینہ ہی ایسا ہوتا،
جب چاہتے کھلا آسمان بنا لیتے
ہر طرف چراغ ہی چراغ جلا لیتے
کہیں سے کسی سورج کو پکڑ لاتے،
اور کہیں درمیان میں گاڑ دیتے
اُداسی کی نیم تاریکی، خاموشی کی، تنہائی،
وحشت اور بے چینی کی نیم تاریکی
جہاں اتنی ساری نیم تاریکیاں اکٹھی ہو جائیں،
کتنا گھٹا ٹوپ اندھیرا پھیل جاتا ہے
اور جہاں خاموشی کی گھٹن،
بے بسی اور بیچارگی کی گھٹن،
ایک دوسرے سے مل جائے،
کتنا بوجھ ہو جاتا ہے
اور پھر کوئی ایک بوجھ کہاں
سو سو طرح کے، الگ الگ، مختلف
خوشیاں بھی بوجھ ہوتی ہیں،
اگر اسے بتائی نہ جا سکیں،
جسے ہم بتانا چاہتے ہیں
کامیابیاں بھی بوجھ ہوتی ہیں،
اگر اسے دکھائی نہ جا سکیں،
جسے ہم دکھانا چاہتے ہیں
وابستگیاں بھی بوجھ ہوتی ہیں
اگر اسے سنائی نہ جا سکیں
جسے ہم سنانا چاہتے ہیں
شہرت، عزت، دولت، سب بوجھ ہوتا ہے
دکھوں اور ناکامیوں کے بوجھ کی طرح
بعض اوقات ان سے بھی زیادہ بوجھل
اس میں کوشش کی تھکن
اور تھکن کی نامرادی
زیادہ شدت سے شامل ہو جاتی ہے
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *