مرا اختیار تو دیکھ وقت کی باگ پر

مرا اختیار تو دیکھ وقت کی باگ پر
اسی ایک پل کی خلش میں بیٹھ کے
میں نے اپنی تمام رات گزار دی
مرا اختیار تو دیکھو وقت کی باگ پر
ترے سکھ کی خواہش و خواب میں تجھے دکھ دیا
مری آرزوؤں کے بازوؤں میں یہ کس نے باندگ دی رسیّاں
مری خواہشوں پہ یہ جال کیسے ہیں تیرے میرے نصیب کے
ترے ایک پل کی خلش
جو سانس کی نالیوں میں اٹک گئی
مری سانس سانس کے ساتھ چلتی ہے آگ کی کوئی دھار سی
میں تجھے پکاروں یا اپنے آپ کو روتا چھوڑ کے چل پڑوں
مجھے کشمکش سے بندھا ہوا کوئی دیکھ لے تو بلک پڑے
یہ لہو
نسوں میں رواں ہے جو
مری روح میں مجھے دیکھ لے تو چھلک پڑے
مرے کپکپانے سے برف لرزی ہے پوہ کی
مرے آہ بھرنے سے لڑکھڑائی ہے چُپ، گری ہے ضعیف درد کے بھاگ پر
مرا اختیار تو دیکھ وقت کی باگ پر
ترے دکھ کی خواہش و خواب میں تجھے دکھ دیا
اسی ایک پل کی خلش میں رات گزار دی
اسی ایک پل کی خلش میں یومِ حساب ہے
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *