مرا انتظار قدیم ہے

مرا انتظار قدیم ہے
مرا تم سے پیار قدیم ہے
مرے پھوٹے ہوئے نصیب پر
ترا اختیار قدیم ہے
مرے ساتھ دکھ میں ہے آسماں
مرا سوگوار قدیم ہے
یہ جو زخم ہیں یہ نئے نہیں
دل تار تار قدیم ہے
وہاں اضطرار قدیم تھا
یہاں انتشار قدیم ہے
مجھے رتجگوں کی قسم مری
شبِ بے قرار قدیم ہے
میں جو ہوں یہ آج نہیں ہوا
مرا حال زار قدیم ہے
مرا غم بہت ہی عظیم ہے
مرا انتظار قدیم ہے
ترا رنگ دھوپ کی پوہ ہے
تری سانس بادنسیم ہے
مرے مہرباں، مرے رازداں
تو رحیم ہے تو کریم ہے
مرے پاس دل ہے جلا ہوا
ترے پاس عقل سلیم ہے
میں تو پیار پیار کا کھیل ہوں
ترا دکھ ہی دکھ مرا تھِیم ہے
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *