میں یاد بھی نہ کبھی آیا دور ایسا تھا
گناہ گار ہوں لیکن بتا کہاں جاؤں
کبھی معافی نہ ہو کیا قصور ایسا تھا
جو کہہ دیا کہ کلامِ خدا ہے شعر نہیں
کوئی معاملہ اس میں ضرور ایسا تھا
کسی نشے کی ضرورت رہی نہ پھر باقی
تمہارے ذکر میں آقاؐ سرور ایسا تھا
کسی بھی شاہ کو خاطر میں لانے والے نہ تھے
ترے غلام ہیں اس پر غرور ایسا تھا
فرحت عباس شاہ