مرابادشاہ غلام ہوتے ہوئے بھی لگتا ہے بادشاہ
کہ سر پہ جھوٹ کا تاج، آنکھوں پہ پٹّیاں ہیں فریب کی
کبھی بھاری بوٹ ڈرا گئے
کبھی ڈوریاں فقط ایک جھٹکے میں تن گئیں
مِرا بادشاہ
کہ سیاہ پیٹ کی خواہشات کے تخت پر ہے جما ہوا
مِرا بادشاہ
کہ روشنی سے نظر چُرانے میں تاک ہے
مِرا بادشاہ
کہ زندگی کے لطیف رنگوں سے پاک ہے
مِرا بادشاہ
کہ پتھروں کی چمک دمک کا اسیر ہے
مرا بادشاہ
کہ بادشاہ ہے وقت کا
اسے لمحہ لمحہ دکھائی دیتے ہیں اپنے گھر کے مخاطرے
مِرا بادشاہ محاصروں کا مرید ہے
وہ ہماری بھوک پہ پاؤں رکھتا ہے رِزق کے
وہ ہماری سوچ پہ تان دیتا ہے، بد نصیبی کی چادریں ،
اسے کیا غرض کسی دین سے
مرا بادشاہ، مرے وزیر، مرے مشیر،
مرے تمام گماشتے
مرے ہاتھ آتے ہیں اک سنہری صلیب پر
میں ادھیڑتا ہوں غلیظ روحوں کا ریشہ ریشہ یقین سے
میں بلند و باندھ محل، مکانوں کی تابناکی کو مار مار کے ریت کرتا ہوں روز اپنی جبین سے
مرے بادشاہ کا نرخرہ مری انگلیوں میں کراہتا ہے تو چونک اٹھتے ہیں حاشیے
مرے بادشاہ کا دل، غریب کی ایڑیوں میں پڑا تڑپتا ہے مکر سے
مرے بادشاہ کے خواب سنتے ہیں، موت میری زمین سے
اسے مار مار کے مارنا مرا کام ہے
مرا بادشاہ غلام ہے
مری بادشاہی سراب ہے
فرحت عباس شاہ