مرا قافلہ سا چلا تھا خواہشِ وصل کا جو تری طرف

مرا قافلہ سا چلا تھا خواہشِ وصل کا جو تری طرف
کبھی راستوں میں بھٹک گئے کبھی جنگلوں میں اُلجھ گئے
اسے شک ہوا کہ میں ڈھونڈ لوں گا اسے کسی نہ کسی طرح
تو وہ قریہ قریہ روش روش پہ ذرا ذرا سا بکھر گیا
میں ترے لیے کسی اور ہجر کا لے کے آؤں گا سانحہ
جسے جھیل کر ترا آسماں بھی تڑپ اٹھے گا عذاب سے
وہ جو رنج بھیجے تھے میں نے تیرے لیے ہواؤں کے دوش پر
وہ تو چند لمحوں کے بعد میری ہی سمت لوٹ کے آ گئے
میں ذرا ذرا سا کہیں کہیں سے بدل گیا ہوں ترے لیے
مرے پاس پہلے سا غم نہیں مرے پاس ویسی خوشی نہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – محبت گمشدہ میری)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *