مرگ برشیطان اعظم

مرگ برشیطان اعظم
مرگ بر شیطان اعظم مرگ بر
تیرے حسنِ مکر آلودہ کی خیر
تیری کوری بے پلک آنکھوں سے ٹپکے انتہائی رازداری سے سفیدی خون کی
زرد پتلی میں چھپی بے مہری ملفوف
چہرے پر پڑی صدیوں پرانی جھریاں اور
ان میں کتنے لاکھ پوشیدہ پڑے جوروستم
اور ڈرامائی تیرا لہجہ بلا کی انکساری، غمگساری
پھر بھی سب کچھ کاروباری طرز پر
تیری پیشانی کی وسعت اک نشان شاخ حیواں بیچ میں
ہونٹ دو جونکیں جڑی
لجلجاتا پلپلا تیرا بدن
چال تیری جس طرح کوئی پرانا ساحر بے نور چشم
اس پہ طرہ یہ کہ اپنے آپ میں بینائی کل بن رہا ہو
لمس چمگادڑ کا
اور اپنائیت بچھو کی دم
رنگ گرگٹ سے بھی کتنے ہاتھ آگے
مرگ بر شیطان اعظم مرگ بر
تیری کالی طاقتوں کی خیر ہو
تو کسی لمحہ اجل بن موت لا سکتا ہے اپنے اک اشارے پر
فضا میں زہر بھر دینے کی طاقت تو تمہاری انگلیوں کی ہر کمینی پور میں ہے
لُوت بوٹی کی طرح تو ہر شجر ہر شاخ سایہ دار کی ایک ایک کونپل پر
مسلط ہو چکا ہے
تو زمینوں کی رگوں میں اور قوموں کی جڑوں میں جب اترتا ہے
تو ان کو کھوکھلا کرنا ذرا مشکل نہیں رہتا تمھارے واسطے شیطاں
تمہارے واسطے کچھ بھی نہیں ہے کوہ پل بھر میں جلا کے راکھ کر دینا
سمندر خشک کر دینا
کہیں بھی آگ بھڑکانا ہوا دینا
ترا عزم جواں پتھر
تری بے باک شخصیت بہت چالاک ہے
ناپاک ہے نیت تری
سفاک ہے تو
ظلم ڈھانے میں بہت ہی طاق ہے تو
مرگ بر شیطان اعظم مرگ بر
تیرا حسنِ ظن
تری تدبیر سہ دھاری کوئی تیغ ستم
تاڑ لیتے ہو پلک جھپکے میں غدار وطن
اور مصاحب بھی بنا لیتے ہو اس کو بھاگ کر
اپنے گھر کو کس قدر چالاک ہو
اپنوں میں رہ کر بھی شبیں تیری گزرتی ہیں ہمیشہ جاگ کر
اور ہیچ ہیں سب حکمتیں سارے جہاں کی
سامنے تیرے تدبر کے تری تجویز کے
تو انتہائے عقل وحشت ناک بھی ہے اور عروج گکر ہیبت ناک بھی
مرگ بر شیطان اعظم مرگ بر
تیری چیرہ دستیوں کی خیر ہو
تیری چابک دستیوں کا دکھ نہیں
دکھ تو اپنی گمرہی پر ہے ہمیں
ہم کہ نیکی کے علمبردار
خود اپنے یقیں کی لاش کندھون پر اٹھائے پھر رہے ہیں
اور خود اپنے پیرہن کو پھاڑ کر
اور دھجیوں کے شامیانے تان کر بیٹھے
سمجھتے ہیں کہ سائباں میسر ہو گیا ہے
ہم کہ اپنا اپنا ایماں باعثِ حیرت بنائے پھر رہے ہیں
ہم مذاہب کے برائے نام پیروکار
اپنے مندروں، گرجوں، کلیساؤں کو
اپنی مسجدوں کو بیچتے پھرتے ہیں تیرے ہاتھ
اور اپنے عقائد کی ڈگر نیلام کرتے پھر رہے ہیں
اور بچاتے پھر رہے ہیں اپنے سینوں کے تہی دامن ظروف
حرص کے محدود پیلے دائروں میں قید نا بینا پرندے
تیرے پنجروں میں نجانے کب تلک مرتے رہیں
اور کب تلک جڑتے رہیں پیشانیوں پر
تمغہ ہائے بزدلی
مرگ بر شیطان اعظم مرگ بر
تیری فتنہ سازیوں کی خیر ہو
فتویٰ بازی کی گلی میں
بڑبڑاتے جاہلوں سے کون پوچھے
کیوں سجا بیٹھے ہو قیمت روح کی
کیوں اگا بیٹھے ہو اپنی بیٹھکوں میں نفرتوں کی کھیتیاں
اور بیج بوتے پھر رہے ہو بستیوں میں
کیوں منافق فصل کے
اور مضبوطی سے رسی کو پکڑنے کے فضائل کیا ہوئے
کیوں بنے پھرتے ہو کٹھ پتلی کسی کی
ناچتے ہو کیوں کسی کی انگلیوں کی چال پر
اور کون پوچھے بادشاہِ وقت سے
(اب تو ہمارا بادشاہ وقت سے سائل نہیں)
اے بادشاہ وقت تیری بھی نگاہیں لگ گئی ہیں
بس اسی رنگیں خلا کی سمت
دامن تو نے بھی پھیلا لیا ہے
اور تری بھی دم نکل آئی ہے
اپنے اقتدار بیوفا کی غیر آئینی طوالت کے لیے
اور کون پوچھے
جو بھی ہاتھ آتا ہے گروی رکھ رہے ہو
آنکھ سپنے، خواہشیں، آسودگی، تقویٰ، مسرت
چاہتیں، ہمدردیاں، عزوجلال اور شان و شوکت
چند لمحات تعیش کے لیے
اور چاٹتے پھرتے ہو شیطاں کی تعفن سے بھری خوشنودیاں
جھونکتے جاتے ہو بھٹی میں ہر اک قلب و ضمیر
اور دلدل مل رہے روح پر
یہ کون پوچھے
کون پوچھے
فکر و دانش کے گرد گھنٹال سے
اے دعویدار حسن و الفت
کیا تمہارے جذبہ و احساس پژمردہ ہیں ایسے ہی
اور ایسے بے سماعت، بے زباں اور بے نشاں ہیں
کیا تمہارے لفظ اتنے بے خبر ہیں
کیا تمہاری صوت اتنی بے نوا ہے
آخرش کیوں
لذتوں کی شاعری میں طاق ہم اہل سخن
سینہ ظلمت میں اپنے حرف نیزے گاڑنے سے اس قدر معذور ہیں
کیوں ہمارے آسماں محصور ہیں
مرگ بر شیطان اعظم مرگ بر
تیری حیلہ بازیوں کی خیر ہو
تو نے جس باریک بینی سے تلاشی ہیں خلیجیں
مرکزیت منتشر کی ہے
اجاڑے ہیں نگر
روندی ہیں لاشیں جس ہنر مندی کے ساتھ
بس ترا ہی کام ہے
تو نے جس خوبی سے صحرا توڑ کر
جنگل جلا کے
ایندھنوں سے بھر لیا گھر بار کیا کہنے ترے
تیرے کرتوتوں میں تیرا کوئی ہم پلّہ نہیں، ثانی نہیں
تیری اعلیٰ ظرفیوں کی خیر ہو
مرگ بر اے افعیِ یک چشم
مرگ بر اے لومڑی کردار
مرگ بر اے نیچ خصلت
مرگ بر اے قوت بد
مرگ بر شیطان اعظم مرگ بر
فرحت عباس شاہ
(کتاب – خیال سور ہے ہو تم)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *