مرے آس پاس ہیں زندگی کی علامتیں

مرے آس پاس ہیں زندگی کی علامتیں
اجلِ عجب کا گزر ہے زیادہ اسی لیے
کبھی اضطراب کے رتھ سے اترا نہیں گیا
خضر خیال سے پوچھ بیٹھے تھے راستہ
ہیں جو آسمانوں کی رنجشوں کی صعوبتیں
انہیں گرتے رہنا پسند کیوں ہے زمین پر
اگر اپنے اپنے مقدروں کی رفوگری
ہمیں اپنے ہاتھ سے کرنا ہو تو پتہ چلے
شب احتیاط نے کر دیا ہمیں مضطرب
نہ ہوا چلی نہ کہیں پہ کھٹکا ہوا کوئی
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ابھی خواب ہے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *