مرا جسم تھا کہ سزا سے بھاری سکوت تھا
مری روح تھی کہ ہوا سے ہلکی چٹان تھی
کوئی غم زدہ
کوئی سَم زدہ سا نگر لباس سفر لپیٹ لے آگیا
وہ شجر جو سینہ دوپہر پہ اگانہ تھا
اسے خود کسی کی تلاش تھی
میں نے سب کے ہونٹوں پہ رکھ کے انگلیاں
چپ کہا
کوئی بولتا تھا تو گونج اٹھتی تھی کھوپڑی
مرے کان گنبدِ بازگشت میں بند تھے
لبِ آرزو
کوئی اور تھا مرے رُوبہ رُو
جسے چاہے جانے کے ڈر سے چاہا نہ تھا کبھی
جسے چھینے جانے کے ڈر سے چھینا نہ تھا کبھی
لبِ آرزو کوئی اور تھا
لبِ جستجو کوئی اور تھا
لبِ گفتگو کوئی اور تھا
مجھے پیٹ بھر کے ملا تو آنکھ بدل گئی
مری آنکھ بدلی تو رنگ روپ بدل گیا
وہ شجر جو سینہِ دوپہر پہ اُگا نہ تھا
مری ساری دھوپ بدل گیا
فرحت عباس شاہ