مرے چار سو

مرے چار سو
مرے چار سو
تری جستجو
تری جستجو کے سراب پھیلے ہیں چار سُو
تری آرزو کے نصاب پھیلے ہیں چار سُو
مرے چار سُو
کوئی دشت بکھری ہوئی کتابوں سے اٹ گیا
مرا پیرہن
کسی ڈبڈبائی نگاہ سا مرا پیرہن
مری اپنی دھول سے اٹ گیا
مرا قد
کہ خود میری ایڑیوں سے بھی گھٹ گیا
میں جو تیری سمت بڑھا
تو اور سِمٹ گیا
تو کسی پرانے خیال جیسا ہے ہُو بہو مرے چار سُو
مِرے کُو بہ کُو
تری آس رہتی ہے ہر جگہ
ترا انتظار ہے رُو بہ رُو
میں اداس بیٹھا ہوں ہجر کی کسی شام پر
مرے پاس کتنی ہی چھوٹی چھوٹی جدائیاں بھی پڑی ہوئی ہیں تھکی تھکی
کئی بے قرار، غبار، دھڑکنیں مضطرب
کئی پھول، پتے، پرندے، گھونسلے، راستے
کئی کھٹے میٹھے ہیں سلسلے کئی تُند خو مرے چار سُو
مرے چار سُو
تری جستجو کے سراب پھیلے ہیں چار سُو
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *