مری خاک سے مرے نور تک

مری خاک سے مرے نور تک
مرے ساتھ چلتی ہے روشنی
کوئی سرخ رنگ کی روشنی
کوئی آگ سی
کوئی سرخ آگ عجیب سی
بڑی دھوپ ہے
مرے پاؤں موم کے پاؤں ہیں
مرے نیچے جون کی ریت ہے، اسے مجھ میں دھنسنا ہے دور تک
مری خاک سے مرے نور تک
مری ایک آنکھ پہ رات ہے
مری دوسری پہ عجیب سی کوئی شام ہے
مجھے ڈس لیا ہے کسی جدائی کے سانپ نے
مجھے پیلی شال سے ڈھانپ دو
مرے پاؤں ریت کے پاؤں ہیں
مرا نور ریت کا نور ہے
میں رکوں تو رکتی ہے ریت بھی
میں چلوں تو چلتی ہے ریت بھی
کوئی سرخ رنگ کی ریت ہے
کوئی سرخ رنگ کی آگ سی
کوئی سرخ آگ عجیب سی
کسی دل جلے کے نصیب سی
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *