مِرے خواب میری کہانیاں

مِرے خواب میری کہانیاں
مِرے بے خبر تجھے کیا پتہ
مرے بے خبر تجھے کیا پتہ
تری آرزوؤں کے دوش پر
تری کیفیات کے جام میں
میں جو کتنی صدیوں سے قید ہوں
ترے نقش میں ترے نام میں
مرے خواب میری کہانیاں
مرے زائچے مرے راستے
مرے لیکھ کی یہ نشانیاں
تری چاہ میں ہیں رکی ہوئی
کبھی آنسوؤں کی قطار میں
کبھی پتھروں کے حصار میں
کبھی دشت ہجر کی رات میں
کبھی بدنصیبی کی گھات میں
کئی رنگ دھوپ سے جل گئے
کئی چاند شاخ سے ڈھل گئے
کئی تن سلگ کے پگھل گئے
تری الفتوں کے قیام میں
ترے درد کے در و بام میں
کوئی کب سے ثبتِ صلیب ہے
تری کائناتوں کی رات میں
ترے اژدھام کی شام میں
تجھے کیا خبر تجھے کیا پتہ
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *