یہ خوشبو ہے کہ جنگل کی ہوا ہے
یہ غم ہے عشق ہے یا پھر خدا ہے
مرے چاروں طرف پھیلا ہوا ہے
میں تیری یاد میں رونے چلا ہوں
مرے ہمراہ دریا بھی چلا ہے
غموں میں ہی سکوں ملتا ہے مجھ کو
اداسی ہی مرے دل کی دوا ہے
عجب اک کشمکش ہے میرے اندر
عجب اک وہم سا دل میں چھپا ہے
وہ میرے سامنے روئی ہے اور پھر
مرے اندر زمانہ رو پڑا ہے
تعارف میں مرے شامل ہے اب تُو
یہ سارا شہر ہی اب جانتا ہے
ذرا سی اور گہری ہو اداسی
تری ہر شام نے مجھ سے کہا ہے
بہت بے ساختہ ہیں اسکی باتیں
بہت ہی بے خبر اس کی ادا ہے
شرارت سے مرا ہی نام فرحت
مرے ہاتھوں پہ اس نے لکھ دیا ہے
اکیلا میں نہیں بے چین فرحت
کسی کے دل کو بھی کچھ کچھ ہوا ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اے عشق ہمیں آزاد کرو)