مرے ہاتھ لتھڑے ہیں خون میں

مرے ہاتھ لتھڑے ہیں خون میں
مرے ہاتھ لتھڑے ہیں خون میں
یہ سفید خون جو بہہ رہا ہے کسی مرے ہوئے خوف سے
یہ سفید خون جو گر رہا ہے مرے لباسِ سیاہ پر
مرے ہاتھ خود بھی کہیں کہیں سے مرا ہوا کوئی خوف ہیں
مرے پیر جو کسی بوڑھے شخص کے جھرّیاں زدہ پیر ہیں
بڑے پاک صاف ہیں بے نوردی کے فرش پر
کہ نہ جانے کب سے چلے نہیں
میں خود اپنے پیروں کو کاٹ دیتا ہوں بے ریائی کی دھار سے
مگر اپنا اپنا خیال ہے
مرے پاس میری جبیں تو ہے
جسے ٹیک دوں تو منافقت کے نہ جانے کتنے ہزار سجدے نکل پڑیں
میں خود اپنے آپ کو سجدہ کرتا رہا ہوں ناف کے تخت پر
مجھے کیا پتہ یہاں کیسا سجدہ روا ہے کیسا نہیں رہا
میں دعا کو ہاتھ اٹھا تو دوں
مرے ہاتھ لتھڑے ہیں خون میں
جو کہیں کہیں سے مرا ہوا کوئی خوف ہیں
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *