مستقل درد کی نعمت سے بھی محروم رہے

مستقل درد کی نعمت سے بھی محروم رہے
چھوٹی سے چھوٹی خوشی کا دھوکہ
آکے کر جاتا ہے ایمان خراب
بے غرض ہجر کہاں سے لائیں
وصل کا شوق ہی رہ جاتا ہے اک تھوڑی تسلی کے لیے
خود فریبی کے حصاروں سے مسلح ہم لوگ
کب تلک درد کی خندق ہی میں محصور رہیں
اور بھی کتنے ہی زندان ہمیں ڈھونڈتے ہیں
قید اور موت میں معمولی سا اک فرق ہے بس
موت حیران کرے قید پریشان کرے
ہم نے اس شہر میں یکلخت اداسی کی طرح ڈالی ہے
ورنہ ہر شکص سمجھتا تھا اداسی ہے فضول
آج ہم اپنی بقا کی خاطر
سوچتے ہیں ک اگر زندگی کچھ اور ذرا بڑھ جائے
(مستقل درد کی شب اور بھی لمبی ہو جائے)
روشنی اور بھی ہو جائے طویل
سانس کی لے میں تیقن آجائے
مستقل درد کی شب جلدی میں آئی کوئی مہمان سی ہے
ایسا لگتا ہے بہت جلد پلٹ جائے گی
زندگی اور بھی گھٹ جائے گی
آرزو اور سمٹ جائے گی
اور یہی سوچتے مر جائیں گے ہم
مستقل درد کی نعمت سے بھی محروم رہے
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *