اور اتنے سارے رنگ
اور اتنے سارے پھول
اور اتنے سارے دریا
جھرنے
باغ
خوشبو
اور اچھی ہوا
میرے تو خواب بھی صرف خوف والے ہیں
حالانکہ بھاگتے اب میں تھک جاتا ہوں
خوابوں میں سستانے کو کوئی جگہ ہی نہیں
دوڑتے رہنے کو بہت ہے
جب میری سانسیں میرے بدن کے گوشت میں
پیوست ہو جاتی ہیں
اور دوسرے سرے سے انہیں کوئی کھینچنا شروع کر دیتا ہے
مجھے اپنی مظلومیت پر ترس آتا ہے
میں دلاسے ڈھونڈنے نکل پڑتا ہوں
ناکام
جب میرے پپوٹے پتھر بن جاتے ہیں
اور کوئی انہیں میری زخمی آنکھوں پر گرانا شروع کر دیتا ہے
اور میں بستی والوں کو
اپنی لہو لہو آنکھوں سے دیکھتا ہوں
تب تک ان کے درندوں والے دانت
بہت بڑھ چکے ہوتے ہیں
وہ ہنسنا چاہتے ہیں
مگر صرف غرا سکتے ہیں
بے وفائی کے گریبانوں والے
اور کچے کانوں والے
خدا کو واپس لوٹنے والے طعنے
آدھے خبیث
آدھے فضول
اور مظلوم
بس چند دوسری طرح کے
غمزدہ اور اداس روہانسے
اور تنہا
اور بہت زیادہ تنہا
دکھتی ہوئی پسلیوں میں زخم پرونے والے کب ختم ہوں گے؟
کب ختم ہوں گے۔۔۔؟
پلکوں کے گرد زنجیریں لپیٹ لپیٹ کر کھینچنے والے
ہمیں ہمارے آنسوؤں کی گردشوں میں باندھ باندھ کے
کب تک گھسیٹتے رہیں گے
نوکیلے دانتوں والا معاشرہ
جنگلوں میں معصوم جانوروں کی انتڑیاں تک ادھیڑ کر
چوس جانے والے
شہروں میں آگئے ہیں
فوج اور پولیس بن کر
اور ہر وقت ہرنوں اور بچھڑوں کی گردنیں تکتے رہتےہیں
اور جھپٹ پڑتے ہیں
کیا دنیا میں صرف دو ہی طبقے ہیں
ایک طاقت ور اور دوسرا کمزور
ایک ظالم اور دوسرا مظلوم
ایک بات اور بھی سمجھنے والی ابھی رہتی ہے
اگر آخری پیغمبر آ چکا ہے
تو اب کون آئے گا
کیا یہ معاشرے بیٹیوں کو زمین میں
زندہ دفن کر دینے والوں سے بہتر ہیں
یہ بھی تو یہی کر رہے ہیں
کبھی اپنی تو کبھی دوسروں کی بیٹیوں کے ساتھ
اور اب تو پیغمبر بھی کوئی نہیں آئے گا
اچھی بات یہی ہے
میں عقیدوں سے گھبراتا نہیں
نا ہی ٹکرا جانا چاہتا ہوں
سمجھنا چاہتا ہوں
سمجھ لینا بہت ساری بیماریوں اور دکھوں کا علاج ہے
بعض دکھ سمجھ لینے سے بڑھ بھی جاتے ہیں
میں نے سمجھا تھا
میرے قتل ہونے پر ہی سیا ہی کے غلیظ کارندے
مجھے خبروں کا موضوع بنائیں گے
یہ تو بہت ہی بے صبرے نکلے
اپنے ضمیر کی ناپاک سیاہی اڑا اڑا کر
صاف شفاف دامنوں کو آلودہ کرنے والے
یہ بھی خون اڑانے والوں جیسے ہی ہیں
آئے دن کسی نہ کسی کا خون اڑاتے اڑاتے
سیاہی اڑانا چاہتے ہیں
ناپاک اندھیرے کے نطفے
حرام زدگی کی کوکھ میں پرورش پانے والے
میرے قتل ہو جانے کا انتظار ہی نہیں کر سکے
اگر میں قدرے مضبوط ہوں تو غم و غصے سے بھرا پڑا ہوں
اور اگر قدرے کمزور ہوں تو بے بسی سے مرا پڑا ہوں
اور دکھی ہوئی پوروں سے
دیواروں پر غم لکھتا پھرتا ہوں
کون سہارے والا ہے
اور کون بے سہارا
سب برابر ہیں
وطن اب میرے لیے وہ غار ہے
جس میں جیون بھر مقید ہو کر
مجھے بے بسی اور غم کی ریاضت کرنی ہے
ایک دن میری میت باہر آئے گی
ہو سکتا ہے میرے بعد میری میت کوئی اعلان کر دے
سال ہا سال غاروں میں زخموں کی تسبیح کرنے والے
یہی تو کیا کرتے ہیں
درختوں سے لیا ہوا قرض
واپس کرنا ہی پڑتا ہے
چھاؤں ہمیشہ کے لئے بھی نہیں ملتی
اور دھوپ آدھی مہربان ہوتی ہے
خوف اور ویرانی کی خلش
کب تک چھپی رہ سکتی ہے
اگر مجھ سے کوئی پوچھتا ہے
تقدیر کیا ہوتی ہے
میں فوراً ہی بتا دیتا ہوں
حادثات کی لکیریں
اور اتفاقات کے دائرے
میں جب بھی اپنی لکیر تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہوں
دائرے مجھے گھیر لیتے ہیں
اور جب دائرے پا لینا چاہتا ہوں
لکیریں کسی تلوار کی طرح میرے وجود میں اتر جاتی ہیں
یہ کوئی ایک جنگ تو ہے نہیں
جانے کیسے کیسے محاذ ہیں
اور کیسے کیسے دشمن
یہ بہت مشکل اور جان لیوا ہے
اس تمام تاریکی میں
اور اس تمام دکھ میں
بس ایک ہی روشنی ہے
اور یہی سچ بھی ہے
کہ خدا میری سہیلی ہے
جسے میں نے اپنے غموں سے پہچانا
فرحت عباس شاہ