مستقل سوچتا رہا ساون
آنکھ میں بولتے رہے آنسو
دشت میں گونجتا رہا ساون
دیر تک اشک آنکھ میں بھر کر
جانے کیا سوچتا رہا ساون
تیری خاموشیوں کے موسم میں
رات دن بولتا رہا ساون
آسماں پیڑ تھا جدائی کا
شاخ پر جھولتا رہا ساون
آہ کی یخ ہوا کے جھونکوں سے
عمر بھر کانپتا رہا ساون
اک سمندر تھا میرا دل جس کے
درد میں ڈوبتا رہا ساون
فرحت عباس شاہ
(کتاب – چاند پر زور نہیں)