مستقل مات سے نکلتا ہوں

مستقل مات سے نکلتا ہوں
میں تری ذات سے نکلتا ہوں
ڈھونڈتا ہوں کوئی نیا رستہ
درد کی رات سے نکلتا ہوں
میں ستارہ سا دل کے پچھلے پہر
دکھ کی بارات سے نکلتا ہوں
جن خیالات میں ہوا ہوں گم
ان خیالات سے نکلتا ہوں
میں مسلسل ہوں اور بامعنی
بات ہوں بات سے نکلتا ہوں
میں شکاری اجل کی سازش سے
عمر کی گھات سے نکلتا ہوں
ہو نہ ہو اب کسی طرح فرحت
اپنے حالات سے نکلتا ہوں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – شام کے بعد – دوم)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *