رات کی کونسی ویرانی سے محفوظ رکھوں
تری یادوں کے ستارے
تری تصویر کا چاند
آخری دکھ سے پرے جو بھی ہے معلوم نہیں
پر ابھی آخری اس دکھ سے ادھر شہر پڑا ہے دکھ کا
شام ہوتی ہے تو دیوار پہ ڈھل آتا ہے
ترا ویران سا لہجہ تری غمناک ہنسی
رات کا پہلا پہر
تری دلدوز خموشی سے سجا رہتا ہے
دوسرا اشکوں سے بھر جاتا ہے
کون روتا ہے نجانے اتنا
زندگی بہتی ہوئی دور نکل جاتی ہے
تیسرا پہر کسی ترسی ہوئی نیند کا گھاؤ لے کر
کھیلتا رہتا ہے آنکھوں کے نہاں خانوں میں
کہیں چبھتا ہے کہیں ٹوٹتا ہے
جو بچا دیکھتا ہے لوٹتا ہے
آخری پہر کہ جیسے کسی بیماری کا مکلاوا ہو
سانس بھی لینے
نہیں پاتے کہ لوٹ آتی ہے دلہن کی طرح
رات کی کونسی ویرانی کو محفوظ رکھوں
تیری یادوں کے ستارے
تیری تصویر کا چاند
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ملو ہم سے)