تم کو کیا حق تھا مری بستی جلا دو
اور مرے پانی لگے کھیتوں پہ بجلی پھینک دو
رستہ نما پتھر اکھاڑو، توڑ دو
یا چاند کی کرنوں کی راہوں میں گھٹائیں ٹانک دو
اور جیل کی تاریک راتوں سی گھٹن۔۔۔یا
ہار جانے پر
ملامت سے سلگتی تیز نظروں کی چبھن
یا آنکھ میں جلتے ہزاروں رتجگوں کی ریت اور اس کی جلن
تم کو کیا حق تھا مرا حصہ بنا دو
اور مری تقدیر سے کھیلو
وفا کے کھیل میں میرا سبھی کچھ راکھ کر دینے کے بعد
معذرت کیسی بھلا کیسا ملال
آج پھر مجھ کو مرے زخموں سمیت
ایک چھوٹی سی دوحرفی معذرت سے
آگ کے دریا میں کانٹوں سے بھرے جنگل میں پھر سے پھینک
دینا چاہتے ہو
تم کو کیا حق ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – خیال سور ہے ہو تم)