لٹکے ہوئے چہرے، راستوں پہ گھسٹتی ہوئی نگاہیں
تھکن اور پژمردگی جن کا حصہ بن چکی ہے
مظلومیت جن کا مزاج
دفتروں، دکانوں، ویگنوں اور ورک شاپوں کے تھکائے ہوئے
موسموں، لمحوں کے ستائے ہوئے
سینے میں دہکتی گھٹن، منوں وزنی سانس
پھوڑے کی طرح دکھتا ہوا سر
تڑختا وجود
کیا کروں
کون سے دروازے پر دستک دوں
کونسی دیوار سے سر پھوڑوں
کون سے کندھے پر ہاتھ رکھوں
کون سی صدا سے صدا ملاؤں
کیا کروں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – خیال سور ہے ہو تم)