منزلیں وہم ہیں

منزلیں وہم ہیں
منزلیں وہم ہیں
اور سفر بس خیال سفر ہے
اگرچہ خلا میں لٹکتے ہوئے پاؤں تیزی سے حرکت میں ہیں
آنکھ کے سمت پیماؤں کی انگلیوں پر جمے منظروں کی قطاریں
فقط بے دعا خواہشوں اور یخ جسم خوابوں کی دہلیز پر خیمہ زن ہیں
مسافت نہیں
بے ہوا اور کچلے پروں
اور جھکے بازوؤں والا کوئی پرندہ
بھلے اپنے پیروں پہ چلتے ہوئے
بستیاں گھومتے عمر سے بے وطن ہے
ریاضت نہیں۔
ساحلوں کے کناروں پہ لہروں سے کٹتی، بکھرتی، سمٹتی ہوئی ریت اور
جھاڑیوں میں پھنسے بادبانوں کی دم توڑتی، چیختی پھڑپھڑاہٹ
کسی ناتواں اور ہارے ہوئے کے لیے
گر کہیں آس کی اک کرن ہے
تو دیوانہ پن ہے
علامت نہیں۔
ہم جو مدت سے پگڈنڈیاں اور سڑکیں بنے اپنے سینوں پہ حالات کی ایڑیاں
سہہ رہے ہیں
بڑے قابل رحم ہیں
اس زمیں پر
جہاں راستے چل رہے ہیں
مگر صبح سے رات تک بے نشاں اور برہنہ
نہ تصویرِ پا ہے نہ نقشِ بدن
کوئی اکھڑی ہوئی درز ہے نا شکن
اور جہاں آہٹوں اور چاپوں کی پرچائیوں کے تلے
سب غلط فہم ہیں
منزلیں وہم ہیں
اور سفر بس خیال سفر ہے
اگرچہ خلا میں لٹکتے ہوئے پاؤں تیزی سے حرکت میں ہیں
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *