موت بھی کیا عجیب ہستی ہے

موت بھی کیا عجیب ہستی ہے
زندگی کے لیے ترستی ہے
دل تو اک شہر ہے جدائی کا
آنکھ تو آنسوؤں کی بستی ہے
عشق میں بھی ہو مرتبے کا خیال
یہ بلندی نہیں ہے پستی ہے
ہم اداسی پہ اپنی ہیں مغرور
ہم کو اپنے دکھوں کی مستی ہے
یاد آیا ہے جانے کیا اس کو
شام کچھ سوچتی ہے، ہنستی ہے
ہم اسے چاہیں یا تمہیں چاہیں
بت پرستی تو بت پرستی ہے
بادلوں پر فقط نہیں موقوف
آنکھ بھی ٹوٹ کر برستی ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اداس اداس)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *