موت کو کس نے دیکھا ہے

موت کو کس نے دیکھا ہے
موت بھی رنگوں کی طرح ہوتی ہے
کسی نہ کسی شے کا رنگ
کسی نہ کسی شے کے موت
تمہاری خاموشی میں میری آواز کی موت بھی ہے
ہو سکتا ہے میرے دل کی موت بھی ہو
میرے شور میں اور میری رونقوں میں تمہاری موت کی ویرانیاں بہت بڑھ گئی ہیں
تم نے دیکھا
تمہارے یوں اچانک چلے جانے سے
یوں اچانک چپ سادھ لینے سے
کسی کو کچھ فرق نہیں پڑا
لوگ ، درو دیوار، کھڑکیاں، دروازے اور درخت
اور باقی بہت کچھ بھی
سب ویسے کا ویسا ہے
اچھے کا اچھا
لیکن وہ رات جو میرے اندر کہیں راستے میں ہی آن پڑی ہے
زیادہ گہری ہوتی جا رہی ہے
اور زیادہ ویران بھی
اس کے بھیجے ہوئے ادھورے اور جھوٹے دلاسوں کی طرح
جھوٹا دلاسہ کیا زندگی ہوتا ہے؟
جھوٹا دلاسہ زندگی نہیں ہوتا
چاہے خدا بھی دے
یہ زندگی عارضی ہے
اور موت برحق
میرا ایمان ہے
لیکن فرض کرو
میں ایمان والا نہیں ہوں
پھر موت کتنی برحق ہے
دوسری زندگی ہے
میرا اس پر بھی ایمان ہے
دوسری زندگی ہو گی
ضرور ہو گی
لیکن کس نے دیکھی ہے
خیر، ایمان موت کو ٹال سکتا ہے
عارضی طور پر
مار نہیں سکتا
ایمان موت کو مار نہیں سکتا
چاہے جتنا بھی پختہ ہو
میرے اندر تمہاری چپ، تمہارے ساکت ہونے سے بھی زیادہ ساکت ہے
اور رات ڈھل رہی ہے
ایک ایسی رات ڈھل رہی ہے
جو ڈھل نہیں چکے گی
بس ڈھلتی رہے گی
موت بھی کون سا آخری بار آتی ہے
تمہاری زندگی بھر کی مسافتوں کی قسم
سب کچھ ویسا ہے
میں ویسا نہیں ہوں
موت کو کس نے دیکھا ہے
بس، آدمی اکیلا رہ جاتا ہے
پوری کی پوری کائنات میں
تنہا ہو جاتا ہے
تنہائی بھی ایک چھوٹی سی موت ہی ہوتی ہے
جس میں آدمی اپنا میت خود دفن کر کے
اسے حیرت اور غم سے تکتا رہتا ہے
کبھی صرف تکتا رہتا ہے
اور کبھی دعا پڑھ کے پھول بھی چڑھا آتا ہے
ایک ہجوم اور ایک بھیڑ میں اکیلا ہو نا
جنازے کا وہیں رہ جانا ہے
خالی قبریں
خالی نہیں ہوتیں
ان میں انتظار ہوتا ہے
جیتا اور جاگتا انتظار
اگرچہ انتظار کو بھی کبھی کسی نے نہیں دیکھا
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *