عمر بھر یوں نہ جاں کَنی ہوتی
پھر تجھے رات کا پتہ چلتا
گر تِری درد سے ٹھَنی ہوتی
ہم تجھے ڈھونڈنے نکل پڑتے
سر پہ اِک دوپہر تَنی ہوتی
سامنے روز میرا دل ہوتا
اور ترے ہجر کی اَنی ہوتی
اُس سے اک پل کے بھی تغافل پر
اُس کی بے چینی دیدنی ہوتی
روز اک شام کے بچھڑنے پر
دل کے سینے پہ شب زنی ہوتی
فرحت عباس شاہ
(کتاب – سوال درد کا ہے)