موسموں کا تشّدد تو جاری رہا ، زندگی تھک گئی

موسموں کا تشّدد تو جاری رہا ، زندگی تھک گئی
سرد راتیں بدن جھولتا چیتھڑا ، زندگی تھک گئی
آنگنوں میں اُگی وحشتوں میں گھرے جسم و جان دیکھ کر
رات چاند اور ستاروں نے بھی کہہ دیا ، زندگی تھک گئی
ہم نے صدیوں ہوا کے تھپیڑوں کو سینے پہ روکا مگر
آگے جانے کہاں تک چلے سلسلہ ، زندگی تھک گئی
تیرگی کے پروں سے اُڑے اور تُم چوٹیوں تک گئے
پیچھے اک بار تو مُڑ کے دیکھو ذرا ، زندگی تھک گئی
وہ جو چپ چاپ بچھڑے ہوؤں کا رہا منتظر آج تک
گھر کی اک ایک دیوار پر لکھ گیا زندگی تھک گئی
فرحت عباس شاہ
(کتاب – شام کے بعد – اول)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *