پتھر کے انسانوں نے
دنیا نے جب بھی چھوڑا ہے
اک نازک سا دل توڑا ہے
ہمیں سمیٹ لیا دامن میں
درد بھرے ارمانوں نے
کچھ کہہ کر بھی جی نہیں سکتے
چپ رہ کر بھی جی نہیں سکتے
سارے رستے بند کیے ہیں
دنیا کے افسانوں نے
مجبوری نے آن لیا ہے
اب تو سب نے جان لیا ہے
کون ہے اس چہرے کے پیچھے
دیکھ لیا نادانوں نے
کچھ بھی کرے زمانہ آخر
سب کچھ ہے رہ جانا آخر
آخر کسی سے کیا لینا ہے
دو پل کے مہمانوں نے
اپنے خدو خال بدل کر
قدم قدم پر چال بدل کر
بدل لیا رستہ جیون کا
ہم جیسے دیوانوں نے
کس منزل پر چھوڑ گئے سب
رشتے ناطے توڑ گئے سب
ہم سے تو منہ موڑ لیا ہے
اپنوں نے بیگانوں نے
وقت کہاں لے آیا ہم کو
غم نے بھی سمجھایا ہم کو
آبادی سے بچ کر نکلے
گھیر لیا ویرانوں نے
اصل تعارف یاد نہیں ہے
کوئی بھی دل آباد نہیں ہے
مار دیا ناموں نے ہم کو
رول دیا پہچانوں نے
اپنے نقش نگار بدل کر
کیا جینا کردار بدل کر
کیا بخشا واقف کاروں نے
کیا چھینا انجانوں نے
فرحت عباس شاہ