موم کا چہرہ
پل پل رنگ بدلتی آنکھیں
جیون سہا نہ جائے
گورے کالے نیلے پیلے
دنیا کے سو موسم
باہر سورج اندر سورج
دھوپ گراتی رم جھم
آنسو آنسو جیون بیتے
کچھ بھی کہا نہ جائے
چاروں جانب تلخی ترشی
اس پر جان اکیلی
من ہی من میں شور مچائے
اک خواہش البیلی
دھیما دھیما یاد دلائے
دل سے رہا نہ جائے
آنگن آنگن راکھ اڑائیں
رشتے تیز ہوائیں
پلٹ پلٹ کر مڑ مڑ دیکھیں
دیتے پھریں صدائیں
نرمی گرمی سے گھبرائیں
صحرا سہا نہ جائے
پل پل رنگ بدلتی آنکھیں
جیون سہا نہ جائے
چھوٹی سی اک ناؤ جیون
غم ہے ایک سمندر
لیکر ڈوب رہا ہے میرے
دل کو اپنے اندر
تن من بن جاتا ہے آنسو
اور پھر بہا نہ جائے
ہر جانب سے حملہ آور
وحشی کالی رات
کس کس دشمن سے ٹکرائے
ایک اکیلی ذات
دکھ سکھ کو بہلائے انوکھا
دل سے رہا نہ جائے
فرحت عباس شاہ