میں نے گھر کے آنگن میں اگے ہوئے بوڑھے پیڑ کی طرف دیکھا
اور دیکھ نہ سکا
میری آنکھیں احتراما جھک گئیں
کیسے کیسے موسم جھیلے تھے اس نے
اور اس کی استقامت میں فرق نہ آیا تھا
میں نے اس پیڑ کی طرف پھر دیکھا
اور اس کے قدموں میں بیٹھ گیا
میں نے اسے بوسہ دیا
اس کی کمزور اور بھربھری جلد
میرے ہونٹوں سے چپک گئی
سایہ کرتے کرتے
چھاؤں دیتے دیتے
کیا عالم ہو گیا تھا اس کا
میرا دل درد سے بھر گیا
ایک شاخ
ایک دبلی پتلی اور سالخوردہ شاخ
میرے سر پر جھک آئی ہے
کتنی شفقت، کتنا تحفظ تھا
اب بھی اسی میں
میرے ارد گرد، پتے آنسوؤں کی طرح گرنے لگے
زرد اور خزاں رسیدہ آنسو
آنسو تو پہلے ہی آنسو ہوتے ہیں
اور اگر زرد بھی ہوں
تو جہاں گرتے ہیں وہاں پت جھڑ کے سوا کچھ نہیں اکتا
میں نے جلدی سے اپنا دامن پھیلالیا
اور سارے آنسو
اپنی جھولی میں سمیٹ لیے
میرا دامن زرد ہو گیا
لیکن میں خوش تھا
چلو میں نے بھی کچھ سمیٹا تو سہی
پیڑ ہوتے ہی ایسے ہیں
شفیق اور مہربان
مہربان اور میٹھے
اپنے حوصلے اور اپنی چھاؤں میں
پیڑ کیا کیا کچھ ہوتے ہیں
نہ رہیں تو پتہ چلتا ہے
میں نے کہا
پیڑ!
میرے وارث!
میرے بادشاہ!
مجھے دعا دو!
میں جانا چاہتا ہوں
میں محبت کے سفر پہ جانا چاہتا ہوں
مجھے رخصت کرو
مجھے وداع کرو
مجھے مسکرا مسکرا کے وداع کرو
کوئی پتّا نہ گرے
کوئی آنسو چھلک نہ پڑے
آنسو چھلک نہ پڑے
اور میرے حوصلے بھیگ نہ جائیں
وداع کرو
ابھی کہ مجھے واپس لوٹنا ہے
فرحت عباس شاہ