ابھی خواب ہے
یہ طویل خواب محیط سینکڑوں کائناتوں کے عہد پر
یہ طویل سرد عذاب
جس میں سیاہ رنگ کی برف گرتی ہے آرزوؤں کی سیج پر
یہ طویل خوف کہ اب، کہ اب
تجھے لے گیا کوئی چھین کے کسی بے پناہ کٹھن پہاڑ کے اُس طرف
وہ پہاڑ وہ تِرا سر پرست
یہ خوف، یہ مِرا اپنا آپ نحیف سا
وہ پہاڑ جس کا نہ سر، نہ پیر، نہ جاں، نہ دل
مگر ایسے بازو کہ ایک بار دبوچ لیں تو کسی کا کچھ بھی نہ بن پڑے
یہ خیال آتا ہے بار بار کہ تُو نہیں تھی تو اجنبی مجھے لے اڑے
ابھی میں نہیں ہوں تو تیرے اپنے تجھے لیے ہوئے پھر رہے ہیں
نظر نظر کے ملال میں
کبھی سوچ! جان، وہ پچھلے خواب کا باغ، باغ کا بنچ، بنچ پہ
آرزو کا کفن
کفن میں وہ لاش، لاش میں زندگی
کبھی سوچ جان
وہ پُل، سڑک، وہ قیام گاہ، وہ پیڑ
پیڑ میں شام، شام میں وصل، وصل میں بندگی
کبھی دیکھ غور سے دیکھ
میرے تو آنسوؤں پہ بھی نیل ہیں
انہیں کس نے مارا ہے سوچ تو
کبھی سن سکوت کی سسکیاں
تجھے بات کرنا محال تھا
مرے ارد گرد جو رو رہا ہے سکوت تیرا ہی روپ ہے
مرے سر پہ چیخ رہی ہیں جو یہ خموشیاں تری دھوپ ہی
تجھے بات کرنا محال تھا
تو یہ ہر طرف مرے چار سُو ترے لفظ بکھرے ہوئے ہیں کیوں
کوئی شک تو کوئی یقین ہے
کوئی پیار ہے تو کوئی فریب کا لفظ ہے
مرے راستوں میں جگہ جگہ
تری ان کہی کے
گڑے ہیں بُت
کوئی ہنس رہا ہے کھڑا کھڑا
کوئی رو رہا ہے پڑے پڑے
یہ ہوا جو پنجے اچھال کے
مرے بال کھینچتی ہے کبھی
کبھی دَھپ سے پیچھے دھکیل دیتی ہے راہ سے
تو یہ بُت لرزتے ہیں رحم سے، ذرا دیکھ تو
کبھی سوچ جان تو کن درختوں میں قید ہے
یہ لباس کس سے لیا ہے تو نے ببول کا
یہ رِدائیں کونسے کیکروں سے
اُتار لائی ہو شہر میں
ترے ناخنوں پہ گلاب کیسے ہیں خواب کے
یہ چنبیلیاں یہ کنول، گلاب یہ ٹیوب روز کی ڈنٹھلیں
تجھے کس کے ہاتھ میں بیچ آئی ہیں سوکنیں
مری سانس، ہائے مِری سانس، ہا،۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے کیا ہوا۔۔۔۔۔۔۔
یہ مرے گلے میں کہاں سے آ گئیں چوڑیاں
ترے نرم بازو کہاں گئے
جو ابھی تھے میرے گلے میں پھولوں کی ڈال سے
مری تھوک میں مرا خون کس طرح آ ملا
مری آنکھ کیوں کسی جلتی بجھتی ہوئی سی دھند سے بھر گئی
مرے حوصلے مری کن بلاؤں سے ڈر گئے
مجھے پانی دو مجھے پانی دو
مرے ہونٹ چبھنے لگے ہیں گالوں میں
اور زبان کی نوک تالو میں آ ر پار اتر گئی ہے خدا قسم
مجھے گیلی ریت ہی بخش دو
مرے خشک ہونٹوں کو دور سے بھی نہ چومنا
کہ جو زہر ہے نا یہ پیاس کا
بڑا جانلیوا ہے۔ مار دیتا ہے نسل بھی
وہ درخت دیکھا جلا ہوا
وہ بھی میں ہی ہوں
اسے میں نے چوما تھا ایک بار
تو پھر اس بعد وہ آج تک نہ ہرا ہوا
وہ گلاب دیکھا مرا ہوا
وہ بھی میں ہی ہوں
وہ ستارہ دیکھا گرا ہوا
وہ بھی میں ہی ہوں
تجھے تھا بھٹکنا تو پوچھ ہی لیا ہوتا تاروں سے راستہ
وہ خطائیں ہی تجھے لے کے آئی ہیں اس طرف
جو خطائیں تجھ سے ہوئی نہیں
مرے اپنے جسم پہ قبریں بنتی دکھائی دیتی ہیں
میری اپنی خطاؤں کی
جو خطائیں مجھ سے ہوئی نہیں
مرے سر پہ کس نے مزار رکھا ہے اس گناہ کبیر کا
جو ہوا نہیں
مری روح پر ترا بوجھ کیوں ہے لدا ہوا
میں تجھے اٹھا کے کہاں کہاں پھروں در بدر
تجھے ایسے لوگوں کی سر زمین پہ چھوڑنا بھی صحیح نہیں
جہاں نوچ لینا اصول ہو
یہ مگس صفت
یہ گِدھیں
یہ چور
یہ باؤلے
کبھی چونچ ماریں یقین میں
کبھی ڈنگ اتار دیں اعتماد کی روح میں
ترے ارد گرد کھڑے ہیں
دانتوں کو ڈھانپ کے
تجھے ہنستا دیکھ کے رونے لگتے ہیں بھوک سے
تجھے روتا دیکھا تو ہنس پڑیں گے امید سے
تجھے اپنی آنکھوں سے مرتے دیکھنا چاہتے ہیں یہ جانور
مرا کانپتا ہوا دل، پسینہ، ہتھیلیوں سے اتر رہا ہے لباس میں
مری پیاس ہی مرا روگ ہے
تری باس آتی ہے پیاس بجھتی ہے تھوڑی دیر کی خود فریبی کی آڑ میں
کوئی شک ابھرتا ہے چاہتوں کے کواڑ میں
کوئی ٹیس اٹھتی ہے پچھلے دکھ کی دراڑ میں
کوئی اک دراڑ
یہاں تو کتنی ہزار ہیں
وہ زمین دیکھو، وہ چکنی مٹی کی اٹّ، جہاں کبھی
پانیوں کا قیام تھا
وہ کٹا پھٹا ہوا فرش
جیسے بدن ہو خواب و خیال و خواہش و عشق کا
کوئی اک خراش کہاں ہے دامن روح میں
کہ جہاں خراشوں کی فصل اگتی ہے ہر برس
میں وہ سر زمینِ نصیب ہوں
میں لکھا گیا ہوں جہاں بھی تیری کتاب میں
وہ ورق اکھاڑ، جلا، جلا کے ہوا میں راکھ بکھیر دے
مگر اک خیال رہے
ہواؤں کے رخ پہ کوئی کھڑا نہ ہو
یہ ہوائیں تیرہ نصیبیوں سے ملیں تو چلتی ہیں
سیاہ موت کی آندھیاں
کوئی سیاہ موت کبھی کسی کی نہیں ہوئی
نہ ثواب کی نہ گناہ کی
ترے میرے پیار کے درمیان بھی سیاہ موت کے سائے لیٹے ہیں دور تک
وہ اداس ٹیلہ کہ جس پہ بیٹھی ہے شامِ ہجر
تھکن سے گھٹنوں میں سر دئیے، کبھی اونگھتی کبھی چونکتی
اسے چھُو کے آ
اسے چھو کے آ تو میں آنکھ کھولوں وصال کی
اسے پوچھ، بنو! یہ کیسا عشق کہ جس میں
درد کے ایک ٹیلے پہ ٹھہر جانا قبول ہو
یہ تو ایسے کتنے ہزار ٹیلوں کا دشت ہے
ذرا سب پہ بیٹھ تو پھر کہیں
اسے پوچھ بنو!
یہ کیا تھکن ہے کہ آنکھ لگنے دے روح کی
وہ خموش رات کہ آن اتری ہے گاؤ تکیے کے پھول پر
بڑا بھاری پھول ہے، دور رکھا بدن بھی ہلتا نہیں ذرا
تو کھڑی ہوئی ہے کنارِ بسترِ مرگ، لیٹا ہوا ہوں میں
ترے گیسوؤں میں بھی پھول ہے
وہی پھول جان کہ جس پہ اتری ہوئی ہے رات عذاب کی
وہی پھول جان کہ جس کے بوجھ سے
تیری آنکھیں دھواں ہوئیں
مرے ہاتھ لکڑی کے ہاتھ ہیں
ترا جسم دھات کا جسم ہے
مری روح ریت کی روح ہے
ترا حسن دھند کا حُسن ہے
مرا خواب کپڑے کا خواب ہے
ترا عشق زخموں کا عشق ہے
مجھے سوچنے دے کئی برس
اسی سوچ سوچ میں ڈوب ڈوب کے تھک گئے مرے پیش رو
کبھی پیار فکر کے دائروں میں سمٹ سکا؟
کبھی چاہ اندھے جنوں کی رینگتی سولیوں سے پلٹ سکی؟
ترا خوف دل کے فراز پر
تری آس تیری ہی زندگی کے نشیب میں
ترا حوصلہ بھی کشاں کشاں ترے آگے آگے ملال میں
مرے ساتھ آؤ
خدا سے ملتے ہیں جا کے اس کے عروج میں
اسے پوچھتے ہیں کہ اے خدا یہ عروج ہے تو زوال کیسا ہے اے خدا؟
اسے پوچھتے ہیں، قلم کہاں ہے تُو جس سے لکھتا ہے راستے؟
اسے پوچھتے ہیں سبھی کے حصے میں ایک جیسی شکست کیوں؟
اسے پوچھتے ہیں محبتوں میں پہاڑ آتے ہیں کس لیے؟
اسے پوچھتے ہیں محبتوں میں زمانے بھر کا وبال کیوں؟
اسے پوچھتے ہیں یہ عمر بھر کا ملال کیوں؟
اسے پوچھتے ہیں محبتوں میں مقدروں کا سوال کیوں؟
اسے پوچھتے ہیں محبتوں میں دلوں کی پاؤں کے آبلوں سے مثال کیوں؟
اسے پوچھتے ہیں کہ یہ بتا ہمیں وہ بتا؟
اسے پوچھ پوچھ کے روتے رہتے ہیں زار و زار؟
کسی دعا کے زوال میں
یہ خدا بھی کیسا ہے آدمی کا خدا بھی ہے
یہ خدا بھی کیسا ہے جانور کا خدا بھی ہے
اسے پوچھ جان
کہ ہم سے بیر ہے، مصلحت ہے یا بے نیازی کی شان ہے؟
چلو چھوڑو ایسا نہ ہو کہ غصے میں آکے باقی بچا کچھا ہوا سازو رخت بھی چھین لے
چلو آؤ جان خدا کو تھوڑا سا خوش کریں
تُو عظیم ہے، تُو کبیر ہے
تُو رحیم ہے، تُو قدیر ہے
تُو نہیں بلاتا تو نا بلا
یہ طویل رات عذاب کی
تُو نہیں ہٹاتا تو نا ہٹا
تُو کہ عمر بھر کی خزاؤں میں
جو کوئی بھی پھول نہیں کھلاتا تو نا کھلا
تُو نہیں ملاتا تو نا ملا
تُو نہیں ملاتا تو نا ملا
تُو نہیں ملاتا تو نا ملا
ابھی خواب ہے
ابھی خواب ہے
فرحت عباس شاہ