میری جانب سے تری سمت یہ غم جاتا ہے

میری جانب سے تری سمت یہ غم جاتا ہے
شعر پیغام ہوا کرتے ہیں مجبوری میں
سیدھی باتوں کے الجھ جانے کا ڈر کانپتے ہونٹوں سے لپٹ جاتا ہے
تجھ کومعلوم نہیں ہے کہ علامات سے غم اور بھی بڑھ جاتے ہیں
شام بھی لوٹ گئی سبز پہاڑوں کی طرف
رات بھی بیت گئی دکھ کے کواڑوں سے پرے
میں ترے شعر میں گم بیٹھا ہوں
میں کہ خود اپنے مکمل اندر
ایسا لگتا ہے کہ ’’تم‘‘ بیٹھا ہوں
زندگی واضع خدوخال میں آئی ہی نہیں ہے
کہ جو سمجھوں اسے تسلیم کروں۔۔۔ یہ مرا اجڑا ہوا دل۔۔۔
تو ہی بتلا کہ میں اب کتنے اشاروں میں، کنائیوں میں
یہ اجڑا ہوا تقسیم کروں
دھڑکنیں ٹوٹنے لگتی ہیں وضاحت کی کسی
پل بہ پل کھنچتی ہوئی رسی سے
مجھ کو معلوم ہے خود تیری طرح
شعر پیغام ہوا کرتے ہیں مجبوری میں
سنتے سنتے کوئی ابہام سا تھم جاتا ہے
دل کے اس پار کسی چوری کا الزام سا جم جاتا ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – کہاں ہو تم)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *