میرے تصور میں بھی نہیں تھا
کہ میرے وطن کے وہ تمام لوگ
جن کے پاس کوئی اختیار ہے
بڑھ چڑھ کر اپنے اختیار کے تیز دھار دائرے
گھما گھما کے قابو میں آئے ہوئے
انسانوں کی گردنیں ادھیڑتے پھریں گے
شاید میں نے اپنی ماں کی گود کو ہی
وطن تصور کر لیا تھا
کیا بادشاہ
اور کیا غلام
عوام کی شہ رگیں بیچنے والے
اور مٹی کے کفن کا سودا کرنے والے حکمران
اور دودھ میں تھوک ملا کر خوش ہو جانے والے غلام
بھیڑئیے ہی بھیڑئیے
کہتے ہی کہ جب کوئی اچھا ہے ہی نہیں
تو ہم کیوں بنیں
خدا کہتا ہے انسان خسارے میں ہے
مجھ کم نظر کو صرف اچھا انسان خسارے میں
نظر آتا ہے
فرحت عباس شاہ