ذرا سا ہٹ کے چلنا چاہتا ہوں
میں سورج ہوں مگر کچھ مختلف سا
کھڑی دوپہر ڈھلنا چاہتا ہوں
یہ دنیا مستقل دھوکہ ہے یارو
میں اس دکھ سے نکلنا چاہتا ہوں
بہت دن رہ لیا دیوانگی میں
مگر اب کچھ سنبھلنا چاہتا ہوں
سمجھ میں آ رہی ہے دھوپ لیکن
میں چھاؤں سے پگھلنا چاہتا ہوں
ابھی باقی ہے تاریکی جہاں میں
ابھی کچھ اور جلنا چاہتا ہوں
فراموشی کی ظالم ایڑیوں سے
تری یادیں کچلنا چاہتا ہوں
لئے بیٹھا ہوں لاشیں بازوؤں کی
کفِ افسوس ملنا چاہتا ہوں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – دو بول محبت کے)