میں اس کے ہر انجام ہر آغاز میں گم تھا

میں اس کے ہر انجام ہر آغاز میں گم تھا
جس میں وہ عیاں تھا میں اسی راز میں گم تھا
اب بھٹکی ہوئی لے کی طرح کھٹکا ہوں سب سے
میں سہمے ہوئے سر کی طرح ساز میں گم تھا
لہجے کی روانی تھی کی دریا کی جوانی
ساحل بھی تری بات کے انداز میں گم تھا
میں نے تمہیں چاہا تو تھے مغرور بہت تم
تم نے مجھے ڈھونڈا تو میں اعزاز میں گم تھا
اک دنیا ترے حسن کے رنگوں میں تھی محصور
اک شہر سریلا تری آواز میں گم تھا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – تیرے کچھ خواب)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *