میں اکیلا ہوں بہت

میں اکیلا ہوں بہت
(اماں کے لیے)
موت نے مار دیا وقت سے پہلے مجھ کو
میں تری موت سے وابستہ ہوا ہوں جب سے
موت نے مار دیا وقت سے پہلے مجھ کو
کس اذیت سے چراؤں نظریں
کھل کے رو بھی نہ سکا ہو جو تری میت پر
میں وہی زخم کا پتھر ہوں
جو خود اپنے ہی سینے پہ پڑا ہوں اب تو
اپنے ہر گھاؤ کے سوراخ میں انگلی ڈالے
کھینچتا رہتا ہوں بے چنی سے تکلیف کے تار
اور سمجھتا ہوں کہ اس درد میں دب جائے گی تکلیف
تجھے مرتے ہوئے دیکھنے کی
کاش اے کاش! کسی طور کھرچ سکتا میں بینائی سے اس منظر کو
جو مرے بین کی شریانوں میں۔۔
بس اچانک ہی تڑپ اٹھتا ہے۔۔۔۔ میرے ماتم میں سلگ اٹھتا ہے
اب میں کس منہ سے رہوں زندہ ترے بعد بتا؟
میںاکیلا ہوں بہت
مری تنہائی کا غم تھا نا تجھے؟
مضطرب کتنا ہوں آ دیکھ مجھے؟
مری بے چینی کا دکھ تھا نا تجھے؟
کس قدر موت کا مارا ہوا پھرتا ہوں، کبھی دیکھ مجھے
تو مری سانس کو سوتے میں بھی محسوس کیا کرتی تھی
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اور تم آؤ)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *