میں بہت اکیلا کھڑا رہا ترا منتظر

میں بہت اکیلا کھڑا رہا ترا منتظر
سبھی چھوڑ چھاڑ کے چل دیے ترا راستہ
مجھے آرزوؤں پہ شک گزرتا ہے رات دن
کسی لمحہ ڈس ہی نہ لیں مزاج کی تازگی
مجھے اپنے آپ زمین ہی نہ دبوچ لے
مرے ارد گرد کھڑے رہو نہ مرے لیے
شبِ بے قرار کا خوف تھا کہ میں شام تک
ترے راستے سے پلٹ کے شہر نہ آ سکا
یہ جو آنکھ پر ہے تنا ہوا ترا جال سا
یہ ہٹے تو تیرے علاوہ کوئی دکھائی دے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ابھی خواب ہے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *