میں بھلا کب ہوں تو ہی تو ہے بہت

میں بھلا کب ہوں تو ہی تو ہے بہت
آج اتنی ہی گفتگو ہے بہت
عادتیں اس کی بھی نرالی ہیں
دل ہمارا بھی تند خُو ہے بہت
دل میں کم ہیں ہزاروں دریا بھی
آنکھ میں ایک آب جُو ہے بہت
اب نہیں جانتا تجھے کوئی
اب مرا نام کُو بہ کُو ہے بہت
دل کے حالات سے تو لگتا ہے
درد کو میری جستجو ہے بہت
فرحت عباس شاہ
(کتاب – مرے ویران کمرے میں)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *