اس پار تک آ پہنچے ہیں اب شام کنارے
اب پانی پہ کشتی ہے نہ تختہ نہ کوئی لاش
اب کس کی طرف تکتے ہیں ناکام کنارے
ہوں بپھری ہوئی ریت کے ماحول میں زندہ
آنگن کوئی صحرا ہے در و بام کنارے
بیٹھی ہے کئی صدیوں سے بے یارومددگار
اک اجڑی ہوئی یاد ترے نام کنارے
ورنہ تو فراموشی کی کوشش میں تھا دریا
دیتے رہے پل پل ترا پیغام کنارے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اداس اداس)