وہ خود کو داسی
اور مجھے دیوتا کہہ رہی تھی
وہ بھلے داسی ہی ہوتی
میں دیوتا نہیں تھا
میں کتراتا رہا
وہ راہ میں آتی رہی
میں بھاگتا رہا
وہ پیچھے بھاگتی رہی
میں ڈرتا رہا
وہ ڈراتی رہی
کبھی کبھی ہم بہت ڈر جاتے ہیں
اپنی اپنی رحمدلی سے
اپنی اپنی خدا ترسی سے
اپنے اپنے دکھوں سے
ہم ڈر جاتے ہیں
اور لوگ بہادر ہوجاتے ہیں
وہ پوجتی رہی
میں لرزتا رہا
وہ مانگتی رہی
مجھ سے میرا اپنا آپ
میں انکار کرتا رہا
میرے پاس تھا ہی کہاں
میرا اپنا آپ
سونپا ہوا
بٹا ہوا
تقسیم شدہ
کھویا ہوا
میرا اپنا آپ
وہ مانگتی رہی
میں ڈھونڈتا رہا
میں ڈھونڈتا رہا اور روتا رہا
اپنی تلاش پر
اپنی مجبوری پر
اپنی مہجوری پر
میں ڈھونڈتا رہا
اور ڈھونڈتے، ڈھونڈتے
ڈھونڈتے
دور نکل گیا
بہت دور
دُھندلا گیا،
اوجھل ہوگیا
فرحت عباس شاہ