میں شاعری سے روٹھ جاتا ہوں
شاعری مجھے منا لیتی ہے
میں اسے سمجھاتا ہوں!
تم اتنا زیادہ مت آیا کرو
یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے
دنیا کیا کہے گی
دنیا پہلے ہی بہت کچھ کہتی ہے
شاعری جواب میں کچھ بھی نہیں بولتی
بس کھلکھلا کر ہنس پڑتی ہے
دنیا پر ہنس پڑتی ہے
میں سویا ہوتا ہوں
میری آنکھوں پر بوسے دے کر مجھے جگاتی ہے
میں سانس لیتا ہوں
میری شریانوں میں اتر جاتی ہے
میں اداس ہو جاتا ہوں
تو میرے آنسوؤں میں آجاتی ہے
میں روتا ہوں تو مجھے گلے لگا لیتی ہے
میں کمرے میں بند ہو جاتا ہوں
شاعری دروازے کی درزوں سے در آتی ہے
میں بھاگتا ہوں تو مجھے سامنے سے آملتی ہے
میں اسے گم کر دیتا ہوں اور تلاش نہیں کرتا
شاعری میرے اندر ہوتی ہے
اور یہ ادھر ادھر گھومتی پھرتی ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – جم گیا صبر مری آنکھوں میں)