دھوپ اپنی بلندی پہ آنے کو تھی اور گھٹا چل پڑی
اب کہاں کوئی محفوظ رہ پائے گا ایسے عالم میں جب
شہر میں دوسروں کو کچل ڈالنے کی وبا چل پڑی
ہر کوئی اپنے مرنے سے پہلے ہی مرگ آشنا ہو گیا
یا خدا تیری دنیا میں کیسی یہ رسم قضا چل پڑی
شہر بھر میں تمہارے چلے جانے سے اس قدر حبس تھا
سانس چلتی تھی اپنی تو لگتا تھا جیسے ہوا چل پڑی
اس نے آنچل فضاؤں میں تھوڑا سا لہرایا تھا اور بس
پھول سمجھے تھے شاید کہ نا وقت بادِ صبا چل پڑی
رات بھی کتنی ضدی ہے بالکل کسی دلربا کی طرح
میں نے کچھ دیر اس کو منایا نہیں یہ خفا چل پڑی
فرحت عباس شاہ
(کتاب – کہاں ہو تم)