میں کہتا ہوں، میں اپنی موت کا منظر دکھوں مارا

میں کہتا ہوں، میں اپنی موت کا منظر دکھوں مارا
مرے دامن میں افسردہ تسلی کے سوا کیا ہے
میں اس سے پوچھتا ہوں کیا بھلا ہے مشترک ہم میں
وہ دل پر ہاتھ رکھتی ہے اور آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
میں اس سے پوچھتا ہوں بات کا موضوع بدلوگی
وہ کہتی ہے کہ میرے پاس اب اس کے سوا کیا ہے
میں اس سے پوچھتا ہوں، کس طرح کے گیت سنتی ہو
وہ کہتی ہے کہ جو اندر کے موسم کی طلب میں ہوں
میں اس سے پوچھتا ہوں کیا کبھی باہر نکل دیکھا
وہ کہتی ہے کہ میں ماحول کے نرغے میں رہتی ہوں
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *