ترے بغیر کسی پل مجھے قرار نہیں
تمام وقت زمانے کو سونپنے والے
یہ زندگی بھی نہیں ہے، اگر فرار نہیں
نہ میرے دل کو سکوں ہے، نہ میری نظروں کو
میں کیسے کہہ دوں مجھے تیرا انتظار نہیں
مجھے پتہ ہے کہ یہ دنیا دار ہیں یارو
مجھے پتہ ہے کہ ان میں مرا شمار نہیں
میں اک نگر ہوں مگر جانے کب سے اجڑا ہوا
میں اک شجر ہوں مگر مجھ پہ برگ و بار نہیں
جلانے آئے بھلا کیوں کوئی چراغ یہاں
یہ میرا دل ہے، کسی پیر کا مزار نہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اور تم آؤ)